ابتدائی حالا تِ زندگی
حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ بڑے زبردست مقتدائے طریقت گزرے ہیں۔ والدین آتش پرست تھے۔ انہوں نے آپ کو اپنے طریق پر تعلیم دینی چاہی۔ معلم کے پاس مدرسہ میں پہنچے۔ معلم نے ہر چند سعی کی کہ آپ ثالث۔ ثلاثہ کہیں مگر آپ ہربار ”ہو اللہ الواحد“ کہتے تھے اور کیوں نہ کہتے کہ آپ حضرت داﺅد طائی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے روٹی کے ٹکڑے کے اثر کی برکت سے پید اہوئے تھے۔ معلم نے زدو کوب شروع کیا اور جب ایک روز بہت مارا تو آپ مدرسہ سے بھاگ کر کہیں غائب ہوگئے۔ ماں باپ نے بے حد تلاش کیا مگر کہیں پتہ نہ چلا آخرماں باپ دعائیں مانگنے لگے کہ بیٹا آجائے۔ کسی دین میں رہے مگر ہما ری نظر کے سامنے تورہے۔
قبولِ اسلام
آپ جو بھاگے تو سیدھے حضرت علی بن موسیٰ رضا کی خدمت میں پہنچے اور مشرف بااسلام ہوگئے۔ مسلمان ہو کر کچھ مدت بعد آپ اپنے گھرگئے اور دروازہ پر آواز دی۔ پوچھا کون جواب ملا معروف! پوچھا کس دین کو اختیار کیے ہوئے ہے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کرچکا ہوں۔ اللہ تعالی کو معلوم اس جواب میں کیا برقی اثر تھا کہ نہ صرف یہ کہ ماں باپ نے گھر میں بلالیا بلکہ اتنے متاثر ہوئے کہ خود ہی بولے کہ جب بیٹے نے اسلام قبول کرلیا تو اب ہم بھی اپنے دین پر نہیں رہنا چاہتے چنانچہ انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ عبادت میں مصروف ہوگئے۔ حضرت دا ﺅد طائی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ کر اُن کے مرید ہوگئے ان کی توجہ نے آپ کو کچھ سے کچھ بنادیا۔ دنیا کی طرف سے دل سرد ہوگیا مجاہدات و ریاضات میں مشغول ہوگئے۔
مرتبہ کمال
پھر تو یہ حالت تھی کہ شوق کے پروں پر اُڑتے تھے اور محبت الٰہی کی آگ روز بروز تیز سے تیز ہوتی گئی۔ جذب و استغراق کی کیفیت طا ری رہنے لگی اور ولایت کبریٰ کے منصب پر فائز ہوگئے اور دور دور تک آپ کا شہرہ ہوگیا۔ حضرت محمد بن منصور طوسی رحمتہ اللہ علیہ بغداد میں آپ سے ملے اور آپ کی خدمت میں حاضر رہے ایک روز انہوں نے دیکھا کہ آپ چند لمحوں میں غائب ہوگئے اور ایسے غائب ہوئے کہ پھر اس دن کسی کو آپ کا پتہ نہ ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ مجھے یہ بتائیے کہ آپ کل کہاں تھے فرمایا تمہیں ان امور سے کیا غرض جن سے تمہارا کوئی مطلب نہیں اور جن کے پوچھنے سے تمہارا کوئی فائدہ ہے وہی بات پوچھو جس کے پوچھنے کی تمہیں ضرورت ہو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو قسم اپنے معبود کی آپ مجھے اس راز سے ضرور آگاہ کریں۔ مجبور ہو کر فرمایاکہ کل مجھے مکہ معظمہ جانے اور کعبہ شریف کا طوا ف کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ میں گیا وہاں نماز پڑھی اور طواف کیا پھر میرا دل چاہا کہ آب ِ زم زم پیوں۔ میں چاہ زم زم پر پانی پینے جارہا تھا کہ اتفاقاً میرا پاﺅں پھسل گیااور میں گرپڑا۔ میرے ٹخنے میں چوٹ آئی جس کا نشان اس وقت موجود ہے۔
اخلاق عالیہ
ایک روز آپ دجلہ پر تشریف لے گئے۔ رفع حاجت کی خواہش ہوئی۔ آپ نے اپنا مصلےٰ اورقرآن ایک جگہ کنارہ پر رکھا اور ایک طرف کو چلے گئے۔ ایک بوڑھی عورت ادھر سے گزری اور مصلےٰ اورقرآن لے کر چلتی ہوئی۔ آپ جو واپس ہوئے تو دونوں چیزیں وہاں نہ پائیں۔ عورت کی طرف خیال گیا۔ آپ اس کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ قریب پہنچے تو سر جھکا کر فرمایا کہ تیرا لڑکا قرآن پڑھ سکتا ہے۔ اس کا جواب اس نے نفی میں دیا تو آپ نے فرمایا کہ اچھا تو میرا مصلےٰ اور قرآن مجید مجھے دے دے۔ اس عورت نے فرطِ ندامت سے گردن جھکالی اور دونوں چیزیں آپ کو واپس دے دیں۔ فرمایا کہ نہیں مجھے دونوں چیزوں کی ضرورت نہیں۔ مصلےٰ کو میں نے تیرے لیے حلال کردیا اسے تو ہی اپنے پاس رکھ صرف قرآن دے دے وہ عورت آپ کا یہ اخلاق دیکھ کر حیران رہ گئی کچھ جواب نہ دیا اور شرمندہ ہو کر چل دی۔ یہ ہیں بزرگانہ اخلاق اگر کسی اور شخص کی کوئی چیز چراتا اور وہ اس کے پا س دیکھ لیتا تو مارتا بھی اور پولیس کے حوالے بھی کردیتا مگر آپ عارف اور ولی تھے اور عارف لوگ تمام بندگانِ الٰہی کو وقعت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کبھی ان کی دل آزاری اور نقصان رسانی گوارا نہیں کرتے اور ان سے لطف و مہربانی سے پیش آنے کو خوشنودی رب قدیر کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
یتیم کی دلدہی
حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا کہ عید کا روز ہے اور آپ کھجوریں چن رہے ہیں پوچھا حضرت یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ فرمایا یہ لڑکا جو میرے پاس کھڑا ہے میں نے اسے روتا ہوا دیکھا اور جب اس سے میں نے اس کے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا آج عید کا دن ہے سب لڑکوں نے نئے نئے کپڑے پہنے ہیں میں یتیم ہوں۔ اس لیے میں کھجوریں چن رہا ہوں کہ انہیں فروخت کر کے اس کے لیے اخروٹ خریدوں تا کہ یہ ان سے بہلے اور اپنا غم بھول جائے۔ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لڑکا تو خوش ہوگیا اور میرے قلب میں اس فعل و امر سے ایک ایسا نور پیدا ہوگیا کہ میری حالت ہی کچھ اور ہوگئی۔ اب ایسے بزرگ کہا ں ہیں جو یتیموں اور غریبوں کی دل دہی کریں اور سمجھیں کہ ”عیال اللہ“ کی خدمت کتنے بڑے اجر عظیم کا با عث ہے۔
ارشاداتِ عالیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جوان مردی کا اظہار تین امور میں ہے۔ سوال کے بغیر بخشش و عطا کی جائے۔ تعریف بلا صلہ و مطلب اور بے غرضانہ کی جائے اور ہر حالت میں وفا شعار رہے ....فرمایا وفا کی حقیقت یہ ہے کہ غفلت کے بعد انسان ہوشیار ہوجائے اور کسی فضول خیال کو قریب نہ آنے دے۔ فرمایا زبان کو تعریف و ستائش سے بھی اس طرح بچانا اور محفوظ رکھنا چاہیے جس طر ح اسے ندامت اور برائی سے بچایا جاتاہے۔
موت کی یاد
ایک روز اتفاقیہ طور پر آپ کا وضو ٹوٹ گیا۔ آپ اُسی وقت اٹھے اور عجلت کے ساتھ تیمم کرلیا۔ لوگوں نے عرض کیا دریائے دجلہ کچھ دور نہیں۔ سامنے ہی بہہ رہا ہے پھر آپ کو تیمم کی کیا ضرورت تھی۔ آپ نے کیوں نہ اس پر جا کر وضو کرلیا۔ جواب میں ارشاد فرمایا۔ اتنی دیر کیوں کر اور کیسے ناپاک رہتا ۔ ممکن تھا کہ اتنے فاصلہ پر پہنچنے سے پیشتر میرا دم نکل جاتا اور موت آکر میرا گلا دبا لیتی۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 332
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں